ایک معصوم تقدّس میں بھگویا ہوا لمس
کتنا پاکیزہ ہے احساس میں دھویا ہوا لمس
یہ تیرے جسم کی خوشبو کا سنہرا احساس
جس طرح چاند کا ہالے میں پِرویا ہوا لمس
اس کے ہونٹوں کو میں چُھو لوں تو گمان ہوتا ہے
جیسے جنّت کے گلابوں میں ڈبویا ہوا لمس
جو میری روح میں اُترے ہی چلے جاتے ہو
اِک نئے رنگ میں اُبھرے گا یہ بویا ہوا لمس
بھیگی خوشبو میں بسا، وصل میں بھیگا بھیگا
کتنا معصوم ہے پہلو میں یہ سویا ہوا لمس
تشنگی آن بسی ہے میری پوروں میں وصی
ڈھونڈتا پِھرتا ہوں مدّت سے میں کھویا ہوا لمس