پھر سے ظلمت کے اندھیروں کو بقاء مل جائے
ظلم کی ڈوبتی سانسوں کو جلاء مل جائے
آگ کے شعلوں سے اٹھتی ہوئی سفاک تپش
راہ نوردوں کے لیئے پھر سے ضیا ء بن جائے
پھر سے لُو کی وہی جھلسی ہوئی جلاد ہواء
جاں بہ لب حبس کے ماروں کی صباء بن جائے
راج ہو پھر سے یہاں جبر و قہر کا قائم
اسطرح ظلم کو پلنے کا قلعہ مل جائے
شان و شوکت سدا انکی رہے دائم یونہی
حق پرستوں کو بغاوت کا صلہ مل جائے
شب کی ظلمت کے وفادار درندوں نے یہاں
نور کے جلوؤں سے گھبرا کے یہ سازش کی ہے
ظلم و بیداد کے مکار شہنشاہوں نے
حق کی تحریک کچلنے کو یہ سازش کی ہے
ظلم و نفرت سے حکومت ہے وطیرہ جنکا
ان ہی سفاک درندوں نے یہ سازش کی ہے
حق کی للکار سے سہمے ہوئے جلادوں نے
حق کی آواز دبانے کی گزارش کی ہے
جھوٹ و نفرت کے لگا کر کئی الزام نئے
سچ کی خوشبو کو پھپانے کی گزارش کی ہے
خون عمران کے دھبوں کو پھپانے کے لیئے
پھر سے کذاب نے الزام کی بارش کی ہے
فتنہ پرداز ہے قاتل کو وہ عیار حلیف
جس نے قائد کو ہٹانے کی سفارش کی ہے
تم کو ماضی میں بھی ذلت زدہ رسوائی ملی
تم نے جب بھی کبھی ایسی کوئی خواہش کی ہے
حق کے سورج کے اجالوں کو کچلنے کے لیئے
آج پھر تم نے جو حسرت زدہ خواہش کی ہے
چھپ سکا ہے نہ چھپے گا کبھی لوگوں سے یہ سچ
لاکھ نظروں سے چھپانے کی جو خواہش کی ہے