اے خدا جسم میں تو نے یہ بنایا کیا ہے
دل تو یہ ہے ہی نہیں پھر یہ دھڑکتا کیا ہے
عشق کی شاخ پہ آئے گا چلا جاتا ہے
دل کے پنچھی کا بھلا ٹھور ٹھکانہ کیا ہے
ہر نشہ کر کے یہاں دیکھ چکا ہوں یاروں
بھول جانے کا اسے اور طریقہ کیا ہے
تیری یادوں میں بہائے ہیں جو آنسو اتنے
آنکھ بھی پوچھ رہی ہے کہ بچایا کیا ہے
یوں ملاقات کا یہ دور بنائے رکھیے
موت کب ساتھ نبھا جائے بھروسہ کیا ہے
ہجر کے بعد یہ سوچو کہ کہاں جاؤ گے
ہم تو مر جائیں گے ویسے بھی ہمارا کیا ہے
میتؔ خوابوں کی خماری سے نکلنے کے باد
اس سے اک بار تو پوچھو کہ بتاتا کیا ہے