اے زندگی تجھے یاد ہے جب توں مانند خواب تھی
رنگ برنگے صفحات سے سجی کوئی مہکتی کتاب تھی
تجھے جینے والے بے داغ تھے اپنے جہاں کے نواب تھے
ان کی چھوٹی سی دنیا میں بڑے بڑے خواب تھے
وہ خواب بھی سراب تھے ہم بڑ ھتے گئے وہ مٹتے گئے
وہ کتاب بنا نصاب تھی ہم پڑھتے گئے حروف مٹتے گئے
ہم خود سے ٹکراتے رہے، اور گرتے رہے پھر سمبھلتے رہے
اپنے ہی لہو کو سیاہی بنا کر وہ خالی کتاب بھرتے گئے
ان رنگین خوابوں کی ہمیں اب کوئی پروا نہیں
ہم بے خوف چلتے رہے سراب خود ہی مٹتے گئے
خود ہی نصاب لکھتے گئے خود ہی کتاب بنتے گئے
صحراؤں میں کالی گھٹا بن کر ہم بے آب برستے گئے
چلنا اٹکنا پھر گر کر سمبھالنا ہم نے اڑنا سیکھ لیا ہے
ملنا بچھڑنا پھر ٹوٹ کر سمٹنا، درد سہنا سیکھ لیا ہے
اس بھول بھلیاں میں بھٹکتے ہم نے ہر راہ دیکھ لیا ہے
اے زندگی اترا مت، ہم نے تجھے جینا سیکھ لیا ہے