ابھی میں لہروں کی مستی کی میں ہوں
ابھی جیون کی ہستی میں ہوں
ابھی ذوق بچپنا ہے
ابھی شوق سجنا ہے
ابھی معصوم ادائیں ہیں
ابھی گمنام ہوائیں ہیں
ابھی بہت ہنسنا ہے
ابھی بہت کھلینا ہے
ابھی تیتلیوں کو پکڑنا ہے
ابھی شگوفوں میں الجھنا ہے
ابھی پھلوں کے رنگ رنگنا ہے
ابھی جگنوؤں کے سنگ چلنا ہے
ابھی سمندر کنارے بکھرنا ہے
ابھی تیز لہر سے الجھنا ہے
ابھی ساون کی جھڑی میں بے وجہ بھگینا ہے
ابھی سخت دھوپ میں جابجا سلگنا ہے
ابھی دن بھر لڑ کر
منا کر رو کر
پریوں کے میلوں میں
خواب جھمیلوں میں
ستاروں کے نگر پر
چاند سفر پر
نکلنا ہے
اے عشق ابھی میری آنکھو میں مت سمانا
اے عشق ابھی میری دھڑکن میں یہ دھڑک مت جگانا
اے عشق ابھی مجھے آواز مت دینا