اے قائد ہم تجھ سے ہم شرمندہ ہے
Poet: purki By: m.hassan, karachiاے قائد ہم تجھ سے ہم شرمندہ ہے
گوروں اور ہندوؤں سے لڑکر
تو نےہمیں جو سائبان دیا تھا
دو قومی نظریہ کو بنیاد بناکر
تو نے ہمیں جو دیس دیا تھا
اسلام کے سانچے میں ڈھل کر
تو نے راحت کا جو پیخام دیا تھا
ذاتوں اور پاتوں کی تفریق مٹاکر
تو نے جو سبق پڑھایا تھا
آج ہم آپس میں لڑ لڑ کر
اک دوجے کے خون کا پیاسا ہوکر
مسکن کی بنیادوں کو کھود کھود کر
قوم،مسلک اور برادری کی دیواریں بنا کر
اپنی اپنی ڈیرھ انچ کی مسجدیں بنا کر
اپنی اپنی ذاتیں بناکر
اپنا اپنا مذہب اور دین بنا کر
اپنی اپنی پاکٹ پارٹی بناکر
اپنے اپنے دائروں میں
اپنے اپنے چکّروں میں
اپنی اپنی گندی سیاست میں لگ کر
قوم کو ٹکروں میں بانٹ دیا
ملک کا مشرقی بازو الگ کردیا
دین اسلام کو فرقوں میں تقسیم کردیا
اک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو کا دشمن بنادیا
ملک کے وسائل حکمرانوں نے آپس میں بانٹ لیا
بڑے بڑے عہدوں پر اپنے اپنے چمچوں اور کاسہ لیسوں کو بٹھادیا
پانچ سالہ مفاہمتی سیاست نے سنگین قسم کی منافقت کو جنم دیا
اور اب
جمہوریت کا کھیل بڑی چالاکی اور مکّاری سے کھیلا جارہا ہے
ہرایک کوانکے سائز کے حساب سے خریدا جارہا ہے
صبح و شام مہنگائی اور کرپشن اپنے عروج پر ہے
سڑکوں پر بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے
ہرجلسے میں انسانوں کا ہجوم موجیں مار رہا ہے
ہر پارٹی مستقبل میں حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے
حکمراں پارٹی اور الائنس پارٹیاں سرکاری وسائل لٹاکربرادریوں کی خریدوفروخت میں مصروف عمل ہیں۔
میڈیا پر ظاہری طور پر اتحاد و اتفاق کا درس دیا جارہا ہے اور اندرونِ خانہ انسانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے ان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔
اب کون ان زبردستوں کو سمجھائے
کون ان کے آگے بولے اور چلّائے
کون ان کے آگے گڑگڑائے
کیونکہ
بقول شاعر
ہم نے تو سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا
اے قائد
ہم بہت مجبور اور تنہا ہے
ہم تجھ سے بہت شرمندہ ہے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






