اے قائد ہم تجھ سے ہم شرمندہ ہے
گوروں اور ہندوؤں سے لڑکر
تو نےہمیں جو سائبان دیا تھا
دو قومی نظریہ کو بنیاد بناکر
تو نے ہمیں جو دیس دیا تھا
اسلام کے سانچے میں ڈھل کر
تو نے راحت کا جو پیخام دیا تھا
ذاتوں اور پاتوں کی تفریق مٹاکر
تو نے جو سبق پڑھایا تھا
آج ہم آپس میں لڑ لڑ کر
اک دوجے کے خون کا پیاسا ہوکر
مسکن کی بنیادوں کو کھود کھود کر
قوم،مسلک اور برادری کی دیواریں بنا کر
اپنی اپنی ڈیرھ انچ کی مسجدیں بنا کر
اپنی اپنی ذاتیں بناکر
اپنا اپنا مذہب اور دین بنا کر
اپنی اپنی پاکٹ پارٹی بناکر
اپنے اپنے دائروں میں
اپنے اپنے چکّروں میں
اپنی اپنی گندی سیاست میں لگ کر
قوم کو ٹکروں میں بانٹ دیا
ملک کا مشرقی بازو الگ کردیا
دین اسلام کو فرقوں میں تقسیم کردیا
اک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو کا دشمن بنادیا
ملک کے وسائل حکمرانوں نے آپس میں بانٹ لیا
بڑے بڑے عہدوں پر اپنے اپنے چمچوں اور کاسہ لیسوں کو بٹھادیا
پانچ سالہ مفاہمتی سیاست نے سنگین قسم کی منافقت کو جنم دیا
اور اب
جمہوریت کا کھیل بڑی چالاکی اور مکّاری سے کھیلا جارہا ہے
ہرایک کوانکے سائز کے حساب سے خریدا جارہا ہے
صبح و شام مہنگائی اور کرپشن اپنے عروج پر ہے
سڑکوں پر بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے
ہرجلسے میں انسانوں کا ہجوم موجیں مار رہا ہے
ہر پارٹی مستقبل میں حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے
حکمراں پارٹی اور الائنس پارٹیاں سرکاری وسائل لٹاکربرادریوں کی خریدوفروخت میں مصروف عمل ہیں۔
میڈیا پر ظاہری طور پر اتحاد و اتفاق کا درس دیا جارہا ہے اور اندرونِ خانہ انسانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے ان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔
اب کون ان زبردستوں کو سمجھائے
کون ان کے آگے بولے اور چلّائے
کون ان کے آگے گڑگڑائے
کیونکہ
بقول شاعر
ہم نے تو سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا
اے قائد
ہم بہت مجبور اور تنہا ہے
ہم تجھ سے بہت شرمندہ ہے