اے مہربان ڈرنے لگا ہوں تیری مہربانیوں سے
دل پہلے بھی زخمی بہت ہے کچھ رہنمائیوں سے
جوانی گئی آشیانہ گیا ہوئے شعور سے فارغ
بھلا اور کیا ہوا جانِ من تیری بے وفائیوں سے
تیری مجبوریاں بھی ٹھیک مگر یہ التماسِ محبت ہے
کہ تو کم ہی ملا کر یار اپنے ہمسایوں سے
تیری یاد کی زنجیر پِہنے ہوئے قفسِ ہِجر میں
اب کی بارش کو دیکھتا رہ گیا کوئی جالیوں سے
اُسے کہو میں ایک مدت سے ہو گیا ہوں خاموشیوں کا
کے لوٹ جائے میں خوش ہوں اپنی تنہائیوں سے