تجھے کیا ملے گا مجھ کو اذیت میں ڈال کر
اے میرے ہم نشیں کچھ تو میرا خیال کر
آنکھوں کے راستے سے کوئی چرا کے لے گیا
رکھے تھے دل کے ورق جو میں نے سنبھال کر
یہ مسلسل تنہایاں تو میرا نصیب ہیں
ان کو چھوڑ ان سے کوئی ہٹ کے سوال کر
عثمان جب یقیں ہو گیا کہ مر گیا ہوں میں
کنارے لگا گیا ، مجھے پانی اچھال کر