اےزندگی ٹہر جا
کہ ابھی جانے کا من نہیں
کام ہیں ابهی نامکمل سے
رشتے ہیں کچھ ادهورے سے
کچھ خواب ہیں ٹوٹے سے
ابھی تو محبت کو محبت کا احساس دلانا ہے
اسکی ہتھیلیوں کو حنا سے سجانا ہے
بچوں کو دل بهر کر گلے لگانا ہے
بہن بهائیوں کے سنگ اک بار پھر عید کو منانا ہے
کچھ روٹھے ہووں کو منانا ہے
کچھ دوستوں کے سنگ مسکرانا ہے
کچھ عداوتوں کو دھونا ہے
کافی عبادتیں ہیں ابهی باقی
پر
وقت کی ریت مٹهی سے پهسلتی جا رہی ہے
زندگی دھیرے دھیرے رخصت پارہی ہے
ہر نظر پر ملال ہے
یہ میرے پیاروں کے اداس چہرے
یہ ان کا سہم ہی مجھے سہما رہا ہے
رخت سفر چکا ہے بندهه
پهر بهی یہ خیال کیوں رلائے جارہا ہے؟
اے زندگی ٹہر جا
کہ ابهی جانے کا من نہیں