بات اثر رکھتی ہے

Poet: samina fayyaz By: samina fayyaz, karachi

گویائی سے اظہار ہوا سوچ گہری فکر رکھتی ہے
خاموش ہو بھی جائےمگر پھر بھی نظر رکھتی ہے

سچی بات کڑوی ہوتی تو ہے مگر جگر رکھتی ہے
نکلتی ہے جو دل چیر کہ نہ پھر زیر زبر رکھتی ہے

اگرچہ بات ہو تیری لا جواب کیا ثمر رکھتی ہے
طبقہ سے تعلق تیرا چولہا جلنے کی جو فکر رکھتی ہے

اسکی گری ہوئی ہو بات پھر بھی شمس و قمر رکھتی ہے
یہ کلاس دولت کی گرمی جیبوں میں ساتھ رکھتی ہے

نظر میں ہو وقعت تو نا سمجھ کی بات بھی وزن رکھتی ہے
چاہے جستجو اور عقل وفہم سے اری ہو ذات اثر رکھتی ہے

دل میں بسے کوئی اس کی بات گوہر نایاب رکھتی ہے
نہ ہو جگہ دل میں کیا تعلیم کیا تجربہ بکواس رکھتی ہے

نہ دو مشورہ کسی کو یہ بات دو دھاری تلوار رکھتی ہے
بد ہو تو تنقید ہو جائے بھلاتو اپ اچھی تقدیر رکھتی ہے

Rate it:
Views: 494
27 Jun, 2014
More Life Poetry