بات ایسی وہ کر گیا
میری نظروں سے گر گیا
میرے دل میں اسی کی عزت تھی
جس کی خاطر میں چپ رہا
کیا بتاؤں میں حال اپنوں کا
میں نے دشمن کو دی دعا
جس کو پالا تھا آستینوں میں
ہم کو اس نے ہی ڈس لیا
اس کے آنے کا منتظر ہی رہا
آگئی اب مری قضا
بعد میرے وہ خوش رہے ہر دم
میری اب بھی یہ ہے دعا
قرض باقی تھا اس کا مجھ پر جو
ہو گیا وہ بھی اب ادا