بات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے
Poet: آتش اندوری By: مصدق رفیق, Karachiبات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے
پھر عجب کیا ہے کہ بچے بھی لڑاکے نکلے
دھیان ماں رکھتی تھی میرا وہ زمانے نکلے
ہیں یوں اب روز سویرے سے کمانے نکلے
آم کے باغ سے جب سے ہیں پرندے غائب
بعد اس کے کہاں پھر آم رسیلے نکلے
پوٹلی جس کے لئے لڑتی رہیں اولادیں
ماں کی اس پوٹلی میں صرف جھروکے نکلے
یہ تو کل یگ ہے کھرا اس میں نہیں ہیں کوئی
مجھ کو شکوہ نہیں سکے مرے کھوٹے نکلے
پھر غریبوں کی شکایت کا خدا حافظ ہیں
جب وزیروں کے امیروں ہی سے رشتے نکلے
گرد جب صاف ہوئی سب نے یہ منظر دیکھا
جو نظر آتے تھے اونچے وہی بونے نکلے
ابتدا پھر سے ہے ایک اور سفر کی آتشؔ
بعد مرنے کے بھلے پیروں سے جوتے نکلے
More Sad Poetry






