چاند تاروں کی بات رہنے دو
تم بہاروں کی بات رہنے دو
جانثاروں کا ذکر مت چھیڑو
غمگساروں کی بات رہنے دو
اپنے بیگانے سب ہی دیکھے ہیں
دوست یاروں کی بات رہنے دو
چھن نہ جائے کہیں قرار ترا
بے قراروں کی بات رہنے دو
آبلہ پا ہوئے سرِ گلشن
خارزاروں کی بات رہنے دو
چشمِ عبرت ہے کھل گئی جب سے
ان نظاروں کی بات رہنے دو
منہ کے بل ہم نے گرتے دیکھا ہے
شہسواروں کی بات رہنے دو
قابلِ تذکرہ نہیں فیصلؔ
غم کے ماروں کی بات رہنے دو