برسوں کی چاہت کوایک پل میں بدلتے دیکھا
ہم نےٹوٹ کر چاہنے والوں کو بات سے مکرتے دیکھا
ہم نے ناز کرتے تھے جو اپنی وفاؤں پر
انہی کو بے وفائی کرتے دیکھا
ہم نے کیسے سجا لیے سپنےاپنی اداس آنکھوں میں
ہر خواب کو ٹوٹ کے بکھرتے دیکھا
ہم سے کرتے تھے جو وعدہ ہمیشہ ساتھ چلنے کا
پھر انہی کو راستہ بدلتے دیکھا
ہم کو اعتبار نہ رہا کسی پر بھی کیا کریں
اس اعتبار کو کتنی بار مرتے دیکھا