بات کو اب بڑھانا کیا
دل کو اور دکھانا کیا
جذبات کی ہو قدر نہیں
وہاں لفظوں کو سجانا کیا
قفل ہو جب دروازے پر
لوٹ کے گھر کو جانا کیا
رہ جاؤں میں بن میں کہیں
تنہایوں سے اب گھبرانا کیا
منزل کا ہو جنہیں تعین نہیں
قافلے میں ان کے سمانا کیا
درد سے ہوں جو نا آشنا
زخموں کا ان سے تزکرانہ کیا
اندھیرے کو درکا ر ہے کرن
آفتاب کو دیا دیکھانا کیا
قدر کو اپنی گرانا کیا
بیتے قصّے کو دہرانا کیا