کیوں خود کو تڑپانا اچھا لگے
آسماں پہ بادلوں کو دیکھنا اچھا لگے
اور بادل
آوارہ بادل
کسی کے نھیں
نہ زمیں کے
نہ ہی آسماں کے
بادل آوارہ
جیسے میری سوچ
کبھی یھاں کبھی وہاں
بادل ھوا کے سنگ اڑتے پھریں
اور ھوا
جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں
اڑتی جائے اڑتی جائے
کسی کو ملتی نھیں
کوئی گھر
کوئی در نھیں
جیسے میری روح
ھوا کے چلنے سے
بادل کے گرجنے سے
شور ھوتا ھے
مگر میری روح
میری سوچ
خاموش
جیسے اک پتہ
شاخ سے ٹوٹا ھوا
تنھا
اکیلا
ھوا سے ڈرتا ھوا
صحرا میں جا گرے
اور صحرا
پیاسا صحرا
ساون کی آس لگائے
جلتا رھے
جسے میں
اور میری روح
اور ساون بے خبر
صحرا کی پیاس سے
جسے تو
کسی اور چمن پہ جا برسے