بار بار کسی کو آزمایا نہیں کرتے

Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabia

بار بار کسی کو آزمایا نہیں کرتے
پتھروں کے سامنے سر جھکایا نہیں کرتے

جو دے نا سکے پل بھر کی بھی خوشی
ایسی رشتوں کو نبھایا نہیں کرتے

خدا پر ہیں بھروسہ تو ُاڑا دیں
زبردستی محبت میں پرندہ قید کیا نہیں کرتے

دامن پھیلا کر بھی بھلا کیا ہوگا ؟
پتھر دل تو آنسوؤں سے بھی پگلا نہیں کرتے

میرے کمرے میں یہ کیسا اندھیرا ہو گیا ہے ؟
کہ اب آسمان کے ستارے بھی یہاں آیا نہیں کرتے

نجانے کیوں بہاروں میں بھی چہرہ ویران رہا لکی ؟
سنو تمہارے بعد گلاب بھی مجھے راس آیا نہیں کرتے

 

Rate it:
Views: 674
17 Jan, 2013