منتشر تھا بارش میں تنہا کھڑا ہوا
مہبوت تیری یادوں میں الجھا ہوا
تیری یاد میں مخبوط الحواس بھی ہوا
منتشرالزہن تھا اختتام پزیر بھی ہوا
ہلاکت آفریں تھا وہ لمحہ بچھڑا ہوا
شششدر ہوں شاید, نہیں جانتا کیا ہوا
گمبیھر لہجے میں خود سے پوچھتا ہوا
بحث وتمحیص خوب کی کچھ حاصل نہ ہوا
کہیں ادھر اُدھرمیں پھرتا ہوا
بارش کو بے کیف محسوس کرتا ہوا
کہیں ہاتھ پھیلاۓ بن پروں کے اڑتا ہوا
منظر رم جم کا آنسووں کو چھپاتا ہوا
برگشتہ طالعی تھی میری نہ جانتا ہوا
سفاکانہ انداز تیری یادوں کا ہوتا ہوا
چہرہ آسماں کی جانب میں کرتا ہوا
ہار کے خود سے خود کو آزاد کرتا ہوا
تصور میں تجھے ہمیشہ پاتا ہوا
بارش کی طرح تجھے الوداع کرتا ہوا
نہیں جانتا, تھا کب لوٹ کے آنا ہوا
ہر بار تو جاتا ہے حیراں کرتا ہوا