بارشیں ہونے سے پہلے بارشیں ہونے کے بعد
Poet: N A D E E M M U R A D By: N A D E E M M U R A D, UMTATA RSAشہر کا منظر اگرچہ
بارشیں ہونے سے پہلے اور تھا
خشک تھی ہر چیز
سب کے دل، دماغ اور راستے
اُونچی دیواریں ، شکستہ جھومپڑے کچے مکاں
دھول اور دھوئیں کی کالک سے اٹے پیڑوں کے جُھنڈ
راستوں کے درمیاں
اور کچھ پودوں میں بے رونق لگے کچھ پھول بھی
بھیگ ہی جاتےنہیں سب، بارشیں ہونے کے بعد
ڈوب جاتے ہیں کئی کم حوصلہ کمزور جسم
بارشیں ہونے سے پہلے، بارشوں کے واسطے
کھیت میں ہاری نے رو رو کے بڑی مانگیں دعائیں
اور نہ جانے منّتیں مانگیں تھیں کتنی
اپنے سب کردہ و ناکردہ گناہوں سے بھی توبہ مانگ لی
آرزوئیں باندھ کر جب آسماں کو دیکھتا
اس کے دونوں ہاتھ اٹھ جاتے تھے اُوپر خود بہ خود
بھیگ جاتی ہے ہر اک شئے بارشیں ہونے کے بعد
ناچتا پھرتا ہے ہاری
گاؤں میں کھیتوں میں کچی بیٹھکوں میں
بھول جاتا ہے سبھی دکھ، درد، غم
بارشیں ہونے کے بعد
اس کے گھر کی چھت بھی گر جائے تو دکھ ہوتا نہیں
ہنس کے شب بھر جاگتا ہے بارشوں کی رات میں
اور بناتا ہے نیا چھپرا مگر
اس کو لگ جاتی ہے چُپ
جب بارشیں رکتی نہیں
سوچتا ہے بارشوں کے بعد کیا رہ جائے گا
زندگی کا سارا سرمایہ یونہی بہہ جائے گا
آدمی کچھ اور سوچے، بارشیں ہونے سے پہلے
بارشیں ہونے کے بعد، اور ہو جاتا ہے کچھ
بارشیں ہونے سے پہلے
تھا مقرر سب ہی کچھ
وقت بھی اور وہ جگہ بھی
تھا جہاں ملنا ہمیں
میں وہیں پر ہوں ابھی تک،بارشیں ہونے کے بعد
مختلف ہے سارا منظر
وقت بھی آنے کا تیرے کٹ گیا
راستے بھیگے نہیں سب
سلسلے بھی منقطع سب ہو گئے
تھا جہاں آنا تجھے
وہ جہاں ہر چیز کو برکھا نے گیلا کر دیا
پھول، پتے، پودے، گھاس اور راستے
میں وہیں بھیگا ہوا بیٹھا رہا
فکر و اندیشہ میں گھبرایا ہوا
کیا کروں جاؤں کہاں
یاس جب امید پر غالب ہوئی
چل دیا ناکامیاب و نا مراد
بارشیں ہونے کے بعد
تب دُھندلکے کی طرح
دور سے آتے ہوئے دیکھا تجھے
بھیگے ہوئے
ہاتھ میں سینڈل اٹھائے
پائنچے کیچڑ میں لت پت
آدمی یہ سوچتا ہے
بارشوں نے روک لی تھی زندگی
زندگی کو روکنا ممکن نہیں
جس طرح چلتا تھا سب کچھ، بارشیں ہونے سے پہلے
بارشیں ہونے کے بعد،پھر رواں ہو جائے سب
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






