دیکھ بدل گئ ہے کیسے ہر رُت زمانے کی
چھوڑا ہے جب سے تم نے مجھ کو بازار میں
تجھ کو دیکھنے کی جو جَسارت نہ کر سکے
وہ کر رہے ہیں اب تیرے چرچے بازار میں
ہوتا تھا تیرا گُزر پَلکوں کی چھاؤں میں
اُٹھ رہی ہیں اب تجھ پر نگاہیں بازار میں
سنبھالو تم اب خود ہی اپنے حِجاب کو
بےلگام پھر رہے ہیں اب سوداگر بازار میں