بازار گرم تھا حسن کا میں نے وہاں بھی تیرا نام لیا
آنکھوں نے پھر قیامت دیکھی میں نے دل تھام لیا
بنا توجہ کا مرکز ہر ایک نشے سے بھری آنکھ کا میں
پوچھ بیٹھے سب، کہاں سے آیا ہے کس نے انتقام لیا
خاموش رہا، کیا کہتا قصور جو سارا خود کا ہی تھا
منہ سے جو نکلا محبت سب نے جینے کا انتظام لیا
دیکھے آکر وہ کہ غیر موجودگی میں بھی غالب ر ہا
آنسو گرتے رہے میرے، دردوں نے جھک کہ سلام لیا
حازق عشق سچا ہو تو کامل بھی ہو ہی جاتا ہے آخر
حیران ہوں ، سب نے اس کے نام کے بعد میرا نام لیا