ابھی مرنا نہیں یاسر ،ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی درد باقی ہیں ، ابھی کچھ آلام باقی ہیں
ابھی تک سلسلہ غلامی دفن نہیں ہوا ہے
ابھی کچھ شاہ باقی ہیں،ابھی کچھ غلام باقی ہیں
ابھی تم ختم نہ کرنا میری اس کہانی کو یاروں
ابھی کچھ خواب باقی ہیں،ابھی کچھ نام باقی ہیں
ابھی تہنا ہی رہنا ہے ابھی تو گھر نہیں جانا
ابھی تو روشنی ہے ،ابھی تو شام باقی ہے
نہ سمجھو اسکو تم آخری شعر کہ لوگوں
ابھی لکھتے رہنا ہے،ابھی بہت کلام باقی ہے