بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے
مرتی ہو کہ جیون
آس ہو کہ یاس
اک کوکھ کی سنتانیں ہیں
اک محور کے قیدی
بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے
جب دل دریا میں
ڈول عشق کا ڈالو گے
ارتعاش تو ہو گا
من مندر کا ہر جذبہ
ہیر کا داس تو ہو گا
بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے
ہر رت کے پھل پھول نیارے
چاندنی راتوں میں
دور امرجہ کے کھلیانوں میں
سیرابی دیتے ہیں
لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں
بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے
من مستی
آنکھوں کا کاجل
دھڑکن دل کی
زلفوں کی ظلمت
کب قیدی ہیں
بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے
آتش گاہیں برکھا رتوں میں
جلتی تھیں جلتی ہیں
جلتی ہوں گی
بالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے