باوفا تھا پر مُجھے رُسوا کیا اس عشق نے
محفلوں کی تھی طلب تنہا کِیا اس عشق نے
راستے بھی صاف تھے نزدیک تھی منزل میری
پر مُجھے ہر راہ سے گُمراہ کِیا اس عشق نے
زندگی میں ہر خوشی تھی روشنی تھی چار سُو
غم نیا ہر موڑ پر پیدا کِیا اِس عشق نے
جان تھی پہچان تھی، اک نام تھا اک شان تھی
بادشاہ تھا پس مُجھے ادنئ کِیا اس عشق نے
کر سکے دُشمن نہ جو وہ دوستوں نے کر دیا
رہ گیا تھا زخم جو گہرا کِیا اس عشق نے
کھیل ہے شانی عجب بالکل سمجھ آتا نہیں
عشق ہے اس عشق کا سودا کیا اس عشق نے