باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
Poet: آنس معین By: مصدق رفیق, Karachiباہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے
شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں
اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے
کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے
جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی
آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے
نئی سحر کی چاپ نہ جانے کب ابھرے گی
چاروں جانب رات کا گہرا سناٹا ہے
سوچ رہے ہو سوچو لیکن بول نہ پڑنا
دیکھ رہے ہو شہر میں کتنا سناٹا ہے
محو خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والا بس اک اندھا سناٹا ہے
ڈرنا ہے تو انجانی آواز سے ڈرنا
یہ تو آنسؔ دیکھا بھالا سناٹا ہے
More Sad Poetry






