بتاتا ہے آئینہ مجھے کیسی بے رخی سے
کہ میں مدہوش ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے
کسے الزام دوں میں رائیگاں ہونے کا اپنے
کہ سارے فیصلے میں نے کئے خود ہی خوشی سے
مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی
میں چھپتا پھر رہا ہوں آج اپنے آپ ہی سے
وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے
کہیں روپوش ہو جاؤں اچانک خاموشی سے
سکون خانہ دل کے لئے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تیری لب بستگی سے
کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ
کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دلکشی سے
ابھی عرفان آنکھوں کو بہت کچھ دیکھنا ہے
تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے