بجھنے لگا دیا تو جلن اور بڑھ گئی
سانسوں نے لی جو سانس تھکن اور بڑھ گئی
پردیس میں مارا ہی آتا رہا خیال
جتنا بھی بھولے اتنی لگن اور بڑھ گئ
منظر ہے سامنے مرے بارش کے بعد کا
برسی یہاں گھٹا تو گھٹن اور بڑھ گئ
دیکھا تھا میں نے آنکھ کا شیشہ مگر یہاں
چہرے پہ اس کے ایک شکن اور بڑھ گئی
اس راستے میں پھولوں نے پہرہ ہے کیا دیا
خاروں کے دل میں آج چھبن اور بڑھ گئ
اس خوشبوؤں کے شہر سے کیا دور ہم ہوئے
وشمہ جی آرزو ئے چمن اور بڑھ گئی