بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں رہا تجھ سے دور جا کر بھی
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی
خدا کرے تجھے دوری ہی راس آجائے
تو کیا کرے گا بھلا یہاں آ کر بھی
ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں اپنا گھر لٹا کر بھی
میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی
ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی
اس طرح ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی
کھلا یہ بھید تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی
رکا نہ ظلم میرے راکھ بننے پر بھی ریاض
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی