بدلا اور نہ بدلے گا ہے یار وہی
پچھلے سال سے اب تک ہے انکار وہی
وہ پتھر دل بنے کیسے بدلے گا
اور یہ دل ضد کرتا ہے بیکار وہی
اُس دہلیز پہ سر رکھنے سے کیا ہوگا
اُس کے ہونٹوں پر ہوگا انگار وہی
رات ہلی جب میرے کمرے کی کھڑکی
آنکھوں میں آ بیھٹے پھر آثار وہی