بدن تلوار پر رکھا ہوا ہے
اناالحق دار پر رکھا ہے
تمہارے ہجر کا بھاری پتھر
دل بیمار پر رکھا ہوا ہے
جو اترا تھا کبھی پھولوں کی خاطر
وہ قطرہ خار پر رکھا ہوا ہے
وہ صدیوں کے سفر کا ایک پتھر
مری رفتار پر رکھا ہوا ہے
ابلتا جا رہا ہے خون دل کا
کہ جیسے نار پر رکھا ہوا ہے
مرے اظہار کا سہما سا لہجہ
مرے انکار پر رکھا ہوا ہے
بنے گا کب تلک وہ پھول پتھر
جو دست یار پر رکھا ہے
سیاہی حرف بنتی جا رہی ہے
قلم اخبار پر رکھا ہوا ہے
کبھی تو لوٹ کر آئے گا دشمن
نشانہ وار پر رکھا ہوا ہے