غم رزق کے سفر میں اذیت سے مر گئے
کبھی ہاتھ نہ پھیلایا تو غیرت سے مر گئے
دکھوں کی ساری منزلیں سسکتے گزر گئیں
تنہائی کے اس نگر میں حیرت سے مر گئے
کچھ واسطہ رہا تھا جدائی کی شام سے
اور جب رات تھی ملن کی تو وحشت سے مر گئے
کشکول میں وفاء کے چند سکے نہ مل سکے
یوں مفلسی کا اوڑھ کر کفن غربت سے مر گئے
گمنامیوں کے دور میں اک دیوان تھا لکھا
برداشت نہ ھوا تو یوں شہرت سے مر گئے