شبنم
گھاس کا مکوڑا پں گیا
بادل
پرندوں نے پروں میں چھپا لیے
آنسو
مگر پلکوں پر تھے ہی کب
امن
اس روز شہر میں کرفیو تھا
روشنی
بارود نگل گیا
امید
دماغ کا خلل نہیں تو اور کیا ہے
قاتل برسر عدالت
انصاف کا طالب تھا
کہ چڑیوں کی چونچیں
مقتول کا پیٹ
روٹی خور ہو گیا تھا
اسے گیس کی شکایت رہتی تھی
ایسے میں
قتل ناگزیر ہو گیا تھا
مقتول کی شاہ خرچی کا عوضانہ
بیوہ اور اس کے بچوں کی
برسر عام
نیلامی سے دلوایا جاءے
کہ انصاف کا بول بالا ہو