برقِ الفت جو تجلی سے جلانے نکلے
تو سرِ راہ محبت کے فسانے نکلے
کل زمانے کو سنائیں گے یہ غزلیں میری
آج جو ہیں میری آواز دبانے نکلے
ہر نظارے میں نمایاں ہوا جلوہ ان کا
حُسن جب حُسن پرستوں سے چھپانے نکلے
آج مارے گئے وہ اپنی انا کے ہاتھوں
جب مجھے برسرِ میدان بچانے نکلے
سنگ ہاتھوں میں لیئے اہلِ زمانے آئے
آئینہ ہم جو زمانے کو دکھانے نکلے
باخدا جان سے جائیں گے یہ دنیا والے
دردِ دل ہم جو انہیں اپنا سنانے نکلے
ایک لمحہ تھا، تیرے وصل کا لمحہ اس میں
تُو نہ سمجھے گا میرے کتنے زمانے نکلے
اُس کو رغبت تھی نئے طرز محبت سے بڑی
میرے اندازِ محبت بھی پرانے نکلے
جب وہ گویا ہوا تب اُس کی زباں سے حیدر
ترکِ الفت کے بھی کیا کیا نہ بہانے نکلے