بزم آزمائش ہے لوگ اپنے شعروں میں تارے توڑ لاتے ہیں
بدر اچھا موقع ہے دل کی بات کہہ جاؤ وہ بھی سننے آئے ہیں
پتھروں پہ سر رکھ کر رات رات روتے ہو کیا خبر نہیں تم کو
یہ بھی سب سمجھتے ہیں ساتھ ساتھ روتے ہیں اپنا جی دکھاتے ہیں
ہم نے اپنے شعروں میں اپنا دل اتارا ہے دل میں کو بھی کوئی ہو
وہ ہمارے شعروں کو اپنا عکس کہتے ہیں، دیکھ کر لجاتے ہیں
رقص و نور و نغمہ ہو بارش کرم ہو گی، آج جشن عشرت ہے
پتھروں کے سوداگر پتھروں کے بھاؤ میں دل خرید لاتے ہیں
روپ دیس کی مالنیو، پنگھٹوں کی سانوریوں کچھ خبر بھی ہے تم کو
ہم تمھارے گاؤں میں پیاسے پیاسے آئے تھے، پیاسے پیاسے جاتے ہیں
سردیوں کی راتوں میں اپنے گاؤں میں گرد الاؤ کے بیٹھے
ہم سے کتنے دیوانے تیرے میرے قصبوں میں اپنا غم سناتے ہیں
گاؤں کی کوئی گوری توڑ کر ہر اک ناتا دور دیس جاتی ہے
ان گھنے درختوں میں آج دف نہیں بجاتے کھیت سر جھکاتے ہیں
رنگ و نور کی گڑیو ، زندگی کی تصویرو تم نے رنج و غم میں بھی
اپنی مسکراہٹ سے ہم سے دل شکستوں کے حو صلے بڑھا تے ہیں
چاند دیس کے لوگو ، دل تمہارے ہوتے ہیں، پیار تم سمجھتے ہو
ہم تو اپنے بچپن سے تم کو چھونے پانے کی حسرتیں چھپاتے ہیں
زندگی تیری فکریں کھلتے ہی گلاب کا رس نچوڑ لیتی ہیں
پھول جیسی عمروں کے سو چتے ہوئے بچے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں
ایک جاتی دنیا میں ،ایک آتی دنیا میں ایک وقفہ ہوتا ہے
اس سیاہ وقفے میں پھول روند جاتے ہیں کانٹے پہنے جاتے ہیں
چاند سے کوئی کہہ دو ، چاندنی کے شعلوں کے اب الاؤ مہکائے
آج میرے آنگن میں مہکی زلفوں کے مہکے مہکے سائے ہیں