بس اسی حد تک جہان رنگ و بو اچھا لگا
اک جوان سرو قد اک خوبرو اچھا لگا
زاہدوں کی روح میں جب جھانک کر دیکھا تو پھر
خرقہ و سجادہ سے اپنا سبو اچھا لگا
گفتگو میں سرد مہری آنکھ میں لطف و کرم
اس کا یہ انداز میرے روبرو اچھا لگا
جب نظر ڈالی کتاب زندگی پر غور سے
اس میں بس اک لمحۂ تیغ و گلو اچھا لگا
اپنی فطرت میں ہے درویشی سو ہم کو مے کشو
ساغر جمشید سے اپنا کدو اچھا لگا
کیا کرے اپنی طبیعت کی کوئی افتاد کو
دوستو وہ دشمن جاں وہ عدو اچھا لگا
جاں نثاروں کی کمی کوئی نہ تھی جابرؔ یہاں
تیغ قاتل کو مگر میرا لہو اچھا لگا