بس ایک پَل کو سوچنا
تمھارے در پہ کوئی دن
مرے بغیر آئے تو
تمھاری دھوپ چھاؤں میں
کہیں نہ میرا سایہ ہو
کہیں نہ ہو نشان کہ
یہاں وہ شخص آیا ہو
وہ شخص
جس کو عشق تھا
تمھارے جسم کے سوا
تھی جس کے دل میں گونجتی
تمھاری روح کی ندا
وہ جس کو ایک عمر سے تمھارا انتظار تھا
وہ جس کو ساری دنیا میں فقط تمھی سے پیار تھا
تمھارے اردگرد کی فضا میں کچھ کمی نہ ہو
تم اس کو ڈھونڈتی رہو
وہی، فقط وہی نہ ہو
سماعتیں تمھاری، گفتگو سے گونجتی رہیں
کلام بولتے رہیں، صدائیں ڈولتی رہیں
اُس ایک آدمی کی تم صدا کبھی نہ سن سکو
جو تم نے اس سے بارہا سنا
کبھی نہ سن سکو
جو اس نے کتنے پیار سے کہا
کبھی نہ سن سکو
صدا وہ ڈوب جائے تو؟
کہیں سے بھی نہ آئے تو؟
وہ لفظ اپنا دل کھرچ کے تم پہ جو لکھے گئے
وہ لفظ، تم میں بس کے رچ کے تم پہ جو لکھے گئے
برستے لمحے ان کو ہر صفحے سے گر مٹا گئے؟
وہ سارے لفظ جل بجھیں
وہ لفظ اس طرح مٹیں
انھیں کہیں نہ پاؤ تم؟
بس ایک پل کو سوچنا
اس ایک پل کو سوچ کر
اس ایک پل کو جھیل کر
لگے نہ تم کو زندگی عذاب ہی
عذاب تو
تمھیں لگے نہ اپنا کل
قیامتوں کا، وحشتوں، اداسیوں کا باب تو
مجھے مرے بنا سکوں سے رہنے کی نوید دو
صفحے پہ ایک لفظ بس ”جُدائی“ لکھ کے بھیج دو