بسے ہیں آپ مرے دل میں عمر بھر کے لئے
صدف بنا تھا یہ شاید اسی گہر کے لئے
بلا خریدی ہے میں نے یہ عمر بھر کے لئے
تمھاری زلف کا سودا ہے میرے سر کے لئے
جو بے غرض نہ ہو، جس میں نہ ہو خلوص کوئی
سلام ایسے تعلق کو عمر بھر کے لئے
شب فراق کی لذت کہاں نصیب انھیں
دعائیں مانگتے رہتے ہیں جو سحر کے لئے
ہوا یہی کہ رکے بزم غیر میں جا کر
ارادہ کر کے چلے تھے وہ میرے گھر کے لئے
ہمارے دل کو متاع حیات کب سمجھا
نشانہ چاہیئے اس شوخ کو نظر کے لئے
جو سادتان غم و درد کا خلاصہ ہو
مجھے وہ اشک ہے درکار، چشم تر کے لئے
ہوس کی آنکھ سے اوجھل ہے بندگی کا مقام
علو عجز ہی معراج ہے بشر کے لئے
عدم کو لے کے چلا ہوں نصیر ! داغ فراق
یہ زاد راہ ہے بہت مجھے سفر کے لئے