لتھڑا غلاظت میں بدبودار
ہوا بشر خود سے بیزار
ڈرائونے گھنائونے بھیانک چہرے
سجاتے ہیں الفت کا دربار
لیے کدورت دلوں میں
ہیں کرتے محبت کا اظہار
وفا کیا جو جانتے ہی نہیں
وہی ہیں پیار کے دعویدار
مرض ہے جان لیوا پھر بھی
آپ ہے دل کے بیمار
جھوٹ ہی بکتا ہے حضرت
نہ کیجیئے سچ کا کاروبار
محنت رائیگاں جائے گی نہیں
بنائیے دیوانگی کو شعار
خواب دیکھئے تو سہی
ملے گی تعبیر بھی سرکار