بظاہر تو ہم ترے در کے سائل تھے
Poet: Muhammad Shariq By: Muhammad Shariq, Karachiبظاہر تو ہم ترے در کے سائل تھے
در پردہ مگر کسی اور کی جانب مائل تھے
کسی کی ستم آرایئوں کا مذکور کیا
ہم تو بس اپنی انا کے گھائل تھے
وقت کو شکست دینے کی ٹھانی بہت نے
وقت کی بے نیازی کے سب ہی قائل تھے
غمِ جاناں، غم دوراں، غم ہستی، غم دنیا
ایک ذات سے وابستہ کتنے مسائل تھے
دل کی یا عقل کی، مانئے تو کس کی
پاس دونوں کے بڑے ٹھوس دلائل تھے
ہر ایک نے فریب کے نئے طور ڈھونڈے
جس کو میسر جتنے بھی وسائل تھے
ہم غریبوں پہ نظر کرم وہ بھلا کیا کرتے
ان کے پیش نظر اور کتنے مسائل تھے
اظہار شناسائی ان سے ممکن نہیں تھا
درمیاں عداوتوں کے پل صراط حائل تھے
زیست کے اندھیرے انہیں کیا دکھ دے پاتے
جو شارق کی طرح چمکنے کے قائل تھے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






