حضرت انسان جو کرنا ہے بقا کا سفر
کر خود کو عاری فنا کے ڈر سے
کر لے یاری علم و ادب سے
ہوجائے گی بهاری تیری سواری
یہ گیسوئے محبوب کی چهاوں چھوڑ دے.کر لے حب فن و ہنر سے
گزر گئی عمر ساری اسی صحرا کی خاک چھانتے
اب تو جاگ جا اور جی لے زندگی
قطرہ قطرہ مت ترس
دریا کو کوزے میں بند کر کے پی لے
حضرت انسان جو کرنا ہے بقا کا سفر
کر خود کو عاری فنا کے ڈر سے