جب سے تو پردیس گیا
مجھ سے آنکھیں پھیر گیا
تب سے میری قسمت پھوٹی
آنکھوں سے تھی نیند بھی روٹھی
دن بھر جاگوں رات کو سوچوں
پلکؤں سے سپنوں کو نوچوں
دکھ میں ڈوبی دل کی دھڑکن
مجھکو ستائے میرا پاگل پن
خوف کے پہرے شام سویرے
غم کا سوگ مناتے اندھیرے
کس سے پوچھوں تو کب آئے
آ کے سوئے بھاگ جگائے
راہ تکتے پتھرا گئیں آنکھیں
سارے دیپ بجھا گئیں آنکھیں
راتوں کو اب سو نہیں پاتے
بن تیرے اب خواب نہیں آتے