سایہ گل سے بہر طور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشہ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
موسمِ گل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رہا ہو جانا
قصرِ آواز میں اِک حشر جگا دیتا ہے
اُس حسین شخص کا تصویر نما ہو جانا
راہ کی گرد سہی، مائلِ پرواز تو ہوں
مجھ کو آتا ہے تیرا بند قبا ہو جانا
زندگی تیرے تبسم کی وضاحت تو نہیں؟
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا
کیوں نہ اُس زخم کو میں پھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو تیرا بندِ قبا “ ہو جانا
اشکِ کم گو! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ ملے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا
قتل گاہوں کی طرح سُرخ ہے رستوں کی جبیں
اِک قیامت تھا میرا آبلہ پا ہو جانا
پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تم میرے خدا ہو جانا
بے طلب درد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا
میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے والے
کون جانے تیری قسمت میں ہے کیا ہو جانا
کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسن
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہوا ہو جانا