بجھنے لگی نظر تو مجھے بولنا پڑا
جلنے لگا جو گھر تو مجھے بولنا پڑا
آنکھوں سے نفرتوں کا ٹپکنے لگا لہو
کٹنے لگے جو سر یوں مجھے بولنا پڑا
وہ مجھ سے کہہ رہا تھا دھماکے پہ صبر کر
میں تھا لہو میں تر تو مجھے بولنا پڑا
اتریں گی کب وطن میں پرندوں کی ٹولیاں
حاکم تھے بے خبر تو مجھے بولنا پڑا