بُھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہٰی ! ترکِ الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں ! کیفیت صہبا کے افسانے
شرابِ بیخودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموش کے چکر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کُھل گئی حسرت تیرے ترکِ محبت کی
تُجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں