گھر ہمارے تھے بن چراغوں کے
اور پھر آئے دن چراغوں کے
بانٹنے میں لگے ہیں اجیالے
بڑھتے جاتے ہیں سِن چراغوں کے
آنکھ روشن درِ رسول پہ ہے
بھاگ جاگے ہیں ان چراغوں کے
اپنی خوشیاں ہی نا سمیٹ فقط
ایک شب غم بھی گن چراغوں کے
دن چڑھا تو بجھا دیا اُن کو
زیرِ احساں تھے جن چراغوں کے
دوسروں کو کریں فراہم یہ
راستے خود کٹھن چراغوں کے
دل کو حسرتؔ لپیٹ میں رکھا
ہائے شعلے تھے کن چراغوں کے