راہیں وہیں کھڑیں تھیں مسافر بھٹک گیا
اک لفظ آتے آتے لبوں تک اٹک گیا
جس پیڑ کی وہ چھاؤں میں کھیلا بڑا ہوا
کیا روگ لگ گیا کہ اسی سے لٹک گیا
دل سے اتر گیا جو جدھر بھی گیا ٬ گیا
لاہور پھر گیا ہو کہ چاہے اٹک گیا
کس کو جلا رہے ہو مرا ہوتھ تھام کر
لگتا ہے کوئی ہاتھ ترا بھی جھٹک گیا
جس کو فرشتہؔ لفظ مرا ہر عزیز تھا
کیوں اس کو آج لفظِ محبّت کھٹک گیا