بچے بھی سزا دیتے ہیں
پہن کے بت انا کا
وہ فرض اپنا بھلا دیتے ہیں
نشہ جوانی کا بہت ظالم
بڑھاپے کو بتا دیتے ہیں
تم نے کیا کیا میرے لئے
آنسو خوں کے رلا دیتے ہیں
سنبھل کر بات کر مجھ سے
عقل کو بےعقل بنا دیتے ہیں
نہ چٹھی نہ فون ، عجب
پیار کو ایذا دیتے ہیں
مہنگائی ہے بہت اماں
کما کے خود ہی اڑا دیتے ہیں
ہیں اب بھی تابعدار پر
بہت کم، وفاوں کا صلہ دیتے ہیں
وقت کہاں ان کے پاس
انٹرنیٹ، گوگل، بیوی بچے پر لگا دیتے ہیں
ماں کیا ہے پوچھ اویس قرنی سے
دعاوں کا خزانہ ہے انہیں کے لئے
ماں باپ یہی صدا دیتے ہیں