بڑا گھر نہ گاڑی زیورات نہ قیمتی ملبوسات
مختصر زندگی ہے کیا کرنا اتنا سامان حیات
مال و دولت عیش کوشی زیست کی رنگینیاں
اپنے بھلا کس کام کی دو چار رہ گئے دن رات
جب تک نظر میں نور ہے تم کو ہی دیکھا کریں
دن کا کوئی بھی پہر ہو یا شام ہو کہ یا ہو رات
اس مختصر حیات میں اپنی تو یہ خواہش رہی
بس تمہارا ساتھ رہے میری زیست کی سوغات
جب بدن سے جان نکلے جان کیا ماہان نکلے
جاں کنی کے وقت جبیں پہ ہو مسیحا کا ہاتھ