بڑی ترتیب رکھتے ہو
سنو میں بکھری بیٹھی ہوں
سنو میں اب بھی ویسی ہوں
سنو تو یوں سناؤں میں
کبھی اک مان تھا ٹوٹا
سبھی تو جانتے ہو تم
بڑی ترتیب رکھتے ہو
کیا مجھ کو جوڑ پاؤ گے؟
یا پھر سے ٹوڑ ڈالو گے؟
کہو کیا کم اذیت ہے؟
کیسی کو اس طرح چاہنا؟
کہ منہ بھی موڑ نا پانا؟
خود ہی الزام سہ لینا؟
خود ہی خاموش ہو جانا؟
کبھی رسوا نہیں کرنا؟
محظ رسوا ہو جانا؟
بڑی ترتیب رکھتے ہو
چلو اتنا بتاؤ تم
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
کہ اتنی رنجشوں کو میں
بھلا کیسے سنبھالوں گی؟
کہ اتنے فاصلوں کو میں
بھلا کیسے مٹائوں گی؟
وہ جو ایک خاص رستہ تھا
ہاں اسی خاص منزل کا
فقط اب خاک و بستہ ہے
بڑی ترتیب رکھتے ہو
اگر پھر لوٹنا چاہو
تو ایک وعدہ زرہ کرنا
کہ جب تم چھوڑ جاؤ گے
یا پھر سے توڑ جاؤ گے
سنو پھر جوڑنے آنا
بڑی ترتیب رکھتے ہو