Add Poetry

بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے

Poet: Dilafar Figar By: Saleem Ullah Shaikh, Karachi

بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے
کھڑے ہیں ووٹ لینے کو کہیں ننھے کہیں بنّے
میں شاعر آدمی ٹھہرا ہزاروں ملنے والے ہیں
مرے چاروں طرف امیدواروں کے رسالے ہیں
ہزارو امیدوار وں کے مقابل میں اکیلا ہوں
ادھر اک فوج مشاقان ادھر میں ایک ٹڑوں ٹوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

انہی امیدواروں میں ہے کوئی میری محبوبہ
اسے ہر حال میں دینا پڑے گا ووٹ مطلوبہ
انہی میں ایک صاحب ایک بڑے افسر کے سالے ہیں
خطرناک آدمی ہیں با اثر ہیں پیسے والے ہیں
وہ کچھ اس قسم کے خط لکھتے ہیں شام و سحر مجھ کو
تمہیں اغواءکرادوں گا نہ دو گے ووٹ اگر مجھ کو
میں پٹنے سے نہیں ڈرتا مگر اغواءسے ڈرتا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

اک ایسا شخص بھی امیدوارِ رہنمائی ہے
کہ جس سے اکثر میں نے مدرسہ میں مار کھائی ہے
انہی امیدواروں میں کوئی میرا بھتیجا ہے
کسی کی لیڈری غیروں کی سازش کا نتیجہ ہے
کسی لیڈر کی بیگم کی سہیلی ہے مری بیوی
کسی نے مجھ کو رشوت میں دیا ہے ایک عدد ٹی وی
کسی سے دور کی نسبت کسی سے پاس کا رشتہ
کسی امیدوارہ سے ہے میری ساس کا رشتہ
کہیں امیدواروں میں ہیں خود میرے بڑے ماموں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

کوئی کہتا ہے تم کو ووٹ دینا ہے ترازو کو
کوئی کہتا ہے پاور فل بناﺅ بائیں بازو کو
کوئی کہتا ہے کہ آﺅ تم کو گھوڑے پر بٹھاﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ تم کو سائیکل پر چھوڑ آﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ آجاﺅ میری چھتری کے سائے میں
میں تم کو چھوڑ آﺅں سیاست کی سرائے میں
کوئی کہتا ہے کہ حقہ بھر گیا ہے دم لگا لیجیے
کوئی کہتا ہے کہ اک عینک ہی کم سے کم لگا لیجیے
سمجھ رکھا ہے یاروں نے کہ میں بالکل ہی اندھا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم جانباز ہے شعلوں سے کھیلے گا
کوئی کہتا ہے میرا بیلچہ خود ووٹ لے لے گا
الف لیلیٰ سناتے ہیں کسی کے والدین اپنی
سفارش کے لیے کوئی لایا ہے لالٹین اپنی
کوئی کہتا ہے بس درخواست اتنی ہے حضور اپنی
کہ اسلامی تمدن کی علامت ہے کھجور اپنی
کہیں ملتی ہے اک پرچی کے بدلے کان کی بالی
کوئی کہتا ہے میرے پاس ہے بس دھان کی بالی
وہ کوئی اور ہیں جو بیچتے ہیں جو ، چنا ، گہیوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

کوئی کہتا ہے ہم اپنے گلے میں ہار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے میرا شیر تو کو مار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے ہل پر ہے نگا انتخاب اپنی
کوئی کہتا ہے ہر سمبل سے بہتر ہے کتاب اپنی
الیکشن میں کہیں بوئے گل رنگیں مہکتی ہے
کہیں تیغِ سیاست ذولفقارانہ چمکتی ہے
کوئی کہتا ہے اس طوفاں میں کشتی کام آئے گی
کوئی کہتا ہے کشتی پر نہ بیٹھو ڈوب جائے گی
مجھے یہ فکر ہے ڈوبوں تو سب کے ساتھ ہی ڈوبوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

کوئی کہتا ہے ہم خر کار ہیں خر ہے نشاں اپنا
بھر ذکر اک گدھے کا اور حسن بیاں اپنا
کوئی کہتا ہے بدلے ووٹ کے لے لو رقم تگڑی
کوئی کہتا ہے تھامے رہو دونوں ہاتھوں سے پگڑی
کوئی کہتا ہے یہ کنجی کلید کامیابی ہے
اگر بھی نہ کام آئے تو قسمت کی خرابی ہے
کوئی کہتا ہے اپنے پاس تو صرف ایک کمبل ہے
کوئی کہتا ہے پیری میں عصا ہر شے سے افضل ہے
کہو تو اسی لاٹھی سے پوری قوم کو ہانکوں
میں اس ماحول سے بچ کر کدھر جاﺅں کہاں بھاگوں
یہ سوچا ہے کہ کچھ دن کے لیے ٹھٹھہ چلا جاﺅں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں

Rate it:
Views: 624
11 May, 2013
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets